Iztirab

Iztirab

زندہ رہنے کا یہ احساس

ریت مٹھی میں کبھی ٹھہری ہے 
پیاس سے اس کو علاقہ کیا ہے 
عمر کا کتنا بڑا حصہ گنوا بیٹھا میں 
جانتے بوجھتے کردار ڈرامے کا بنا 
اور اس رول کو سب کہتے ہیں 
ہوشیاری سے نبھایا میں نے 
ہنسنے کے جتنے مقام آئے ہنسا 
بس مجھے رونے کی ساعت پہ خجل ہونا پڑا 
جانے کیوں رونے کے ہر لمحے کو 
ٹال دیتا ہوں کسی اگلی گھڑی پر 
دل میں خوف و نفرت کو سجا لیتا ہوں 
مجھ کو یہ دنیا بھلی لگتی ہے 

بھیڑ میں اجنبی لگنے میں مزا آتا ہے 
آشنا چہروں کے بدلے ہوئے تیور مجھ کو 
حال سے ماضی میں لے جاتے ہیں 
کہنیاں زخمی ہیں اور گھٹنوں پر 
کچھ خراشوں کے نشاں 
سوندھی مٹی کی مہک کھینچے لیے جاتی ہے 
تتلیاں پھول ہوا چاندنی کنکر پتھر 
سب مرے ساتھ میں ہیں 
سانس بے خوفی سے لیتا ہوں میں 

شہریار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *