Iztirab

Iztirab

زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے

زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے
خزاں قدم بہ قدم ہے بہار کیا جانے
لکھا ہے اس کے مقدر میں اضطراب دوام
قرار کیا ہے دل بے قرار کیا جانے
نصیب راحت قرب دوام ہو جس کو
وہ لذت خلش انتظار کیا جانے
سمجھ رہے ہیں جسے سب گناہ گار یہاں
اسی پہ ہو کرم کردگار کیا جانے
کئے پہ اپنے ہو خود منفعل بشر آخر
یہی ہو جبر یہی اختیار کیا جانے
تڑپ رہا ہوں میں اپنے گناہ گن گن کر
اسی کا نام ہو روز شمار کیا جانے
کہاں یہ شام غریباں کہاں وہ صبح وطن
وہ فرق گردش لیل و نہار کیا جانے
جو پاؤں توڑ کے بیٹھے سر رہ منزل
وہ کب اٹھیں گے کوئی شہسوار کیا جانے
بایں کمال خرد کیوں ہے مائل الحاد
مقام جوشؔ کو محرومؔ زار کیا جانے

تلوک چند محروم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *