Iztirab

Iztirab

زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں

زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں 
ہم کو تُو بس ڈبو گئیں نیل کہ کٹرے والیاں 
تیغ جُو رکھی سان پر سدھ جُو سنبھالی اس نے ٹک 
وضعیں نئی تراشیاں طرزیں نئی نکالیاں 
ہم پہ تُو برسے صبح تک خنجر و تیغ و تیر ہی 
ابر بلا سے کم نہیں ہجر کی راتیں کالیاں 
شعلے کی جوں مدد کرے دود نخست خار و خس 
مسی سے اُور دھواں ہوئیں ہونٹوں کی اس کی لالیاں 
موکمران باغ حُسن لچکیں جُو مثل شاخ بید 
دِل کو نہ کیوں ہلاویں پھر ان کی یہ نو نہالیاں 
اِک شرر آہ کا میری باعث شور و شر ہوا 
جگنُو کو دیکھ جس طرح لڑکے بجاویں تالیاں 
صاحب نعمت اس طرح رہتے ہیں سب سے سرخ رو 
سوئے زمیں جھکی رہیں میوے کی جیسے ڈالیاں 
کس سے پڑھاوے کوئی خط انشا ہی جس کا ہو غلط 
یعنی کے اس نے بے نقط بھیجی ہیں لکھ کہ گالیاں 
کنج قفس میں باغ سے آئے تھے جُو نئے اسیر 
صوتیں انہوں کی ساری رات میرے جِگر میں سالیاں 
مصحفیؔ اس کی بزم میں بھوکے ہیں ناز کہ جُو لوگ 
گالیوں کی جگہ انہوں ملتی ہیں کیا سہالیاں

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *