Iztirab

Iztirab

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے 
مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے 
رک رک کے ساز چھیڑ کہ دل مطمئن نہیں 
تھم تھم کے مے پلا کہ طبیعت اداس ہے 
چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی 
اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے 
مجھ سے نظر نہ پھیر کہ برہم ہے زندگی 
مجھ سے نظر ملا کہ طبیعت اداس ہے 
شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال 
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے 
ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی 
رخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے 
میں نے کبھی یہ ضد تو نہیں کی پر آج شب 
اے مہ جبیں نہ جا کہ طبیعت اداس ہے 
امشب گریز و رم کا نہیں ہے کوئی محل 
آغوش میں در آ کہ طبیعت اداس ہے 
کیفیت سکوت سے بڑھتا ہے اور غم 
قصہ کوئی سنا کہ طبیعت اداس ہے 
یوں ہی درست ہوگی طبیعت تری عدمؔ 
کمبخت بھول جا کہ طبیعت اداس ہے 
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمؔ 
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے 

عبد الحمید عدم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *