Iztirab

Iztirab

سامنے ان کے تڑپ کر اس طرح فریاد کی

سامنے ان کے تڑپ کر اس طرح فریاد کی
میں نے پوری شکل دکھلا دی دل ناشاد کی
اب یہی ہے وجہ تسکیں خاطر ناشاد کی
زندگی میں نے دیار حسن میں برباد کی
ہوش پر بجلی گری آنکھیں بھی خیرہ ہو گئیں
تم تو کیا تھے، اک جھلک سی تھی تمہاری یاد کی
چل دیا مجنوں تو صحرا سے کسی جانب مگر
اک صدا گونجی ہوئی ہے نالہ و فریاد کی
نغمۂ پر درد چھیڑا میں نے اس انداز سے
خود بہ خود مجھ پر نظر پڑنے لگی صیاد کی
دل ہوا مجبور جس دم اشک حسرت بن گیا
روح جب تڑپی تو صورت بن گئی فریاد کی
اس حریم قدس میں کیا لفظ و معنی کا گزر
پھر بھی سب باتیں پہنچتی ہیں لب فریاد کی
تمتما اٹھے وہ عارض میرے عرض شوق پر
حسن جاگ اٹھا وہیں جب عشق نے فریاد کی
آشیاں میں اب کسی صورت نہیں پڑتا ہے چین
تھی نظر تاثیر میں ڈوبی ہوئی صیاد کی
شعر میں رنگینی جوش تخیل چاہیئے
مجھ کو اصغرؔ کم ہے عادت نالہ و فریاد کی

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *