Iztirab

Iztirab

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے

سانس لینا بھی سزا لگتا ہے 
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے 
کوہ غم پر سے جو دیکھوں تو مجھے 
دشت آغوش فنا لگتا ہے 
سر بازار ہے یاروں کی تلاش 
جو گزرتا ہے خفا لگتا ہے 
موسم گل میں سر شاخ گلاب 
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے 
مسکراتا ہے جو اس عالم میں 
بہ خدا مجھ کو خدا لگتا ہے 
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے 
کوئی بولے تو برا لگتا ہے 
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا 
درد یہ سب سے جدا لگتا ہے 
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن 
شکر کرتا ہوں گلہ لگتا ہے 
اس قدر تند ہے رفتار حیات 
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *