Iztirab

Iztirab

سبھاش چندر بوس بہادر شاہ ظفر کے مزار پر

السلام اے عظمت‌ ہندوستاں کی یادگار 
اے شہنشاہ دیار دل فقیر بے دیار 

آج پہلی بار تیری قبر پر آیا ہوں میں 
بے نوا ہوں نذر کو بے لوث دل لایا ہوں میں 

گردش تقدیر کے ہاتھوں وطن سے دور ہوں 
ایک بلبل ہوں مگر صحن چمن سے دور ہوں 

شوق آزادی کا مجھ کو کھینچ لایا ہے یہاں 
آج دشمن ہے زمیں میری عدو ہے آسماں 

میں بھی ہوں اپنے وطن سے دور تو بھی دور ہے 
ہاں رضائے پاک یزداں کو یہی منظور ہے 

میرا دامن بھی یہاں کی خاک سے آلودہ ہے 
فرق صرف اتنا ہے میں آوارہ تو آسودہ ہے 

اے شہ خوابیدہ اے تقدیر بیدار وطن 
آئنہ میری نگاہوں پر ہے او بار وطن 

میرے دل کو یاد ہے اب تک وہ ستاون کی جنگ 
جس کے بعد اس سرزمیں پہ چھا گئے اہل فرنگ 

میری نظروں میں ہے میرٹھ اور دہلی کا زوال 
جانتا ہوں میں جو تھا جھانسی کی رانی کا مآل 

میں نہیں بھولا ابھی انجام نانا فرنویس 
ہے نظر میں کوشش ناکام نانا فرنویس 

داستاں جیسے بھی ہو گزری وہ سب معلوم ہے 
تیرے دلبندوں پہ جو گزری وہ سب معلوم ہے 

یہ وطن روندا ہے جس کو مدتوں اغیار نے 
جس پہ ڈھائے ظلم لاکھوں چرخ ناہنجار نے 

جس کو رکھا مدتوں قسمت نے ذلت آشنا 
جس نے ہر پہلو میں دیکھی پستیوں کی انتہا 

آج پھر اس ملک میں اک زندگی کی لہر ہے 
خاک سے افلاک تک تابندگی کی لہر ہے 

آج پھر اس ملک کے لاکھوں جواں بیدار ہیں 
حریت کی راہ میں مٹنے کو جو تیار ہیں 

آج پھر ہے بے نیام اس ملک کی شمشیر دیکھ 
سونے والے جاگ اپنے خواب کی تعبیر دیکھ 

اس طرح لرزے میں ہے بنیاد ایوان فرنگ 
کھا چکے ہیں مات گویا شیشہ بازان فرنگ

حب قومی کے ترانوں سے ہوا لبریز ہے 
اور توپوں کی دنادن سے فضا لبریز ہے 

شور گیر و دار کا ہے پھر فضاؤں میں بلند 
آج پھر ہمت نے پھینکی ہے ستاروں پر کمند 

پھر امنگیں آرزوئیں ہیں دلوں میں بے قرار 
قوم کو یاد آ گیا ہے اپنا گم گشتہ وقار 

نوجوانوں کے دلوں میں سرفروشی کی امنگ 
عشق بازی لے گیا ہے عقل بیچاری ہے دنگ 

آج پھر اس دیس میں جھنکار تلواروں کی ہے 
کچھ نرالی کیفیت پھر دیس کے پیاروں کی ہے 

جو توانائی ارادوں میں ہے کہساروں کی ہے 
ذرے ذرے میں نہاں تابندگی تاروں کی ہے 

یہ نظارہ آہ لفظوں میں سما سکتا نہیں 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں 

فتح نصرت کی دعاؤں سے ہوا معمور ہے 
نعرۂ جے ہند سے ساری فضا معمور ہے 

مجھ کو اے شاہ وطن اپنے ارادوں کی قسم 
جن کے سر کاٹے گئے ان شاہ زادوں کی قسم 

تیرے مرقد کی مقدس خاک کی مجھ کو قسم 
میں جہاں ہوں اس فضائے پاک کی مجھ کو قسم 

اپنے بھوکے جاں بہ لب بنگال کی مجھ کو قسم 
حاکموں کے دست پرور کال کی مجھ کو قسم 

لال قلعے کے زوال و شہر دہلی کی قسم 
محسن دہلی مآل شہر دہلی کی قسم 

میں تری کھوئی ہوئی عظمت کو واپس لاؤں گا 
اور ترے مرقد پہ نصرت یاب ہو کر آؤں گا 

تیغ ہندی جس کا لوہا مانتا ہے اک جہاں 
جس کی تیزی کی گواہی دے رہا ہے آسماں 

تیغ ہندی جس کو میں نے کر دیا ہے بے نیام 
جس کا شیوہ حریت کیشی جہانگیری ہے کام 

جس نے پوری منصفی کی آج تک دنیا کے ساتھ 
ظلم کی دشمن ہے جو اک ظلم بے پردا کے ساتھ 

ہر قدم پر جس نے باطل کو ملایا خاک میں 
جس کے ساکھوں کی ابھی تک گونج ہے افلاک میں 

آج پھر اپنی نظر جس کی چمک سے خیرہ ہے 
جس کی تابانی سے روشن اک جہان تیرا ہے 

اک جزیرے کے حسیں ساحل سے جب ٹکرائے گی 
چین سے مجھ کو بھڑکتی آگ میں نیند آئے گی 

جگن ناتھ آزاد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *