Iztirab

Iztirab

سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں

سب ہمارے لیے زنجیر لیے پھرتے ہیں 
ہم سر زلف گرہ گیر لیے پھرتے ہیں 
کون تھا صید وفادار کے اب تک صیاد 
بال و پر اس کہ تیرے تیر لیے پھرتے ہیں 
تُو جُو آئے تُو شب تار نہیں یاں ہر سو 
مشعلیں نالۂ شب گیر لیے پھرتے ہیں 
تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت 
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے ہیں 
معتکف گرچہ بظاہر ہوں ، تصور میں مگر 
کو بہ کو ساتھ یہ بے پیر لیے پھرتے ہیں 
رنگ خوبان جہاں دیکھتے ہی زرد کیا 
آپ زور آنکھوں میں اکسیر لیے پھرتے ہیں 
جُو ہے مرتا ہے بھلا کس کو عداوت ہوگی 
آپ کیوں ہاتھ میں شمشیر لیے پھرتے ہیں 
سرکشی شمع کی لگتی نہیں گر اِن کو بری 
لوگ کیوں بزم میں گُل گیر لیے پھرتے ہیں 
تا گنہ گاری میں ہم کو کوئی مطعوں نہ کرے 
ہاتھ میں نامۂ تقدیر لیے پھرتے ہیں 
قصر تن کو یُوں ہی بنوا یہ بگولے ناسخؔ 
.خوب ہی نقشۂ تعمیر لیے پھرتے ہیں 

امام بخش ناسخ 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *