Iztirab

Iztirab

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا

ستم گروں کا طریق جفا نہیں جاتا 
کہ قتل کرنا ہو جس کو کہا نہیں جاتا 
یہ کم ہے کیا کہ مرے پاس بیٹھا رہتا ہے 
وہ جب تلک مرے دل کو دکھا نہیں جاتا 
تمہیں تو شہر کے آداب تک نہیں آتے 
زیادہ کچھ یہاں پوچھا گچھا نہیں جاتا 
بڑے عذاب میں ہوں مجھ کو جان بھی ہے عزیز 
ستم کو دیکھ کے چپ بھی رہا نہیں جاتا 
بھرم سراب تمنا کا کیا کھلا مجھ پر 
اب ایک گام بھی مجھ سے چلا نہیں جاتا 
عجیب لوگ ہیں دل میں خدا سے منکر ہیں 
مگر زبان سے ذکر خدا نہیں جاتا 
اڑا کے خاک بہت میں نے دیکھ لی اے زیبؔ 
وہاں تلک تو کوئی راستہ نہیں جاتا 

زیب غوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *