Iztirab

Iztirab

سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو

سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو
کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو
یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو
لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو
یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
چنا ہے جامہ اصلی کی آستینوں کو
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
بھلا تردد بے جا سے ان میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو
انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی
معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو
یہ زائروں کو ملیں سرفرازیاں ورنہ
کہاں نصیب کہ چومیں ملک جبینوں کو
سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے
بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو
لحد بھی دیکھیے ان میں نصیب ہو کہ نہ ہو
کہ خاک چھان کے پایا ہے جن زمینوں کو
زوال طاقت و موئے سپید و ضعف بصر
انہیں سے پائے بشر موت کے قرینوں کو
نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی
زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو
خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی
جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو
جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے
کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہم نشینوں کو
نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی و تنہائی
لحد کی خاک ہے سرمہ مال بینوں کو
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
.انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

میر ببر علی انیس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *