Iztirab

Iztirab

سرشار ہوں سرشار ہے دنیا مرے آگے

سرشار ہوں سرشار ہے دنیا مرے آگے 
کونین ہے اک لرزش صہبا مرے آگے 
ہر نجم ہے اک عارض روشن مرے نزدیک 
ہر ذرہ ہے اک دیدۂ بینا مرے آگے 
ہر جام ہے نظارۂ کوثر مرے حق میں 
ہر گام ہے گلگشت مصلےٰ مرے آگے 
ہر پھول ہے لعل شکر افشاں کی حکایت 
ہر غنچہ ہے اک حرف تمنا مرے آگے 
اک مضحکہ ہے پرسش عقبیٰ مرے نزدیک 
اک وہم ہے اندیشۂ فردا مرے آگے 
ہوں کتنی ہی تاریک شب زیست کی راہیں 
اک نور سا رہتا ہے جھلکتا مرے آگے 
میں اور ڈروں صولت دنیائے دنی سے 
خود لرزہ بر اندام ہے دنیا مرے آگے 
جھکتا ہے بصد عجز کلیسا مرے در پر 
آتا ہے لرزتا ہوا کعبہ مرے آگے 
پیمانے سے جس وقت چھلک جاتی ہے صہبا 
لہراتا ہے اک حسن کا دریا مرے آگے 
جب چاند جھمکتا ہے مرے ساغر زر میں 
چلتا نہیں خورشید کا دعویٰ مرے آگے
جب جھوم کے مینا کو اٹھاتا ہوں گھٹا میں 
ہلتا ہے سر گنبد مینا مرے آگے 
آتی ہے دلہن بن کے مشیت کی جلو میں 
آوارگی آدم و حوا مرے آگے 
پیمانے پہ جس وقت جھکاتا ہوں صراحی 
جھکتا ہے سر عالم بالا مرے آگے 
پہلو میں ہے اک زہرہ جبیں ہاتھ میں ساغر 
اس وقت نہ دنیا ہے نہ عقبیٰ مرے آگے 
جوشؔ اٹھتی ہے دشمن کی نظر جب مری جانب 
.کھلتا ہے محبت کا دریچا مرے آگے

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *