Iztirab

Iztirab

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ 
نکلتا آ رہا ہے ، آفتاب آہستہ آہستہ 
جواں ہونے لگے جب وُہ تُو ہم سے کر لیا پردہ 
حیا یک لخَت آئی اُور شباب آہستہ آہستہ 
شب فرقَت کا جاگا ہوں ، فرشتُو اب تُو سونے دُو 
کبھِی فرصت میں کر لینا حِساب آہستہ آہستہ 
سوال وصَل پر اِن کو عدو کا خوف ہے اِتنا 
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ 
وُہ بے دردی سے سر کاٹیں امیرؔ اُور میں کہوں اِن سے 
.حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

امیر مینائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *