Iztirab

Iztirab

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا 
خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا 
اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے 
ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا 
پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ ترے 
ہاتھ دستار پر رہے گا کیا 
وہ جو اک خواب ہم نے دیکھا تھا 
خواب ہی عمر بھر رہے گا کیا 
مر رہے ہیں فراق میں تیرے 
تو ہمیں مار کر رہے گا کیا 
عشق خانہ خراب تیرے بعد 
کوئی آباد گھر رہے گا کیا 
ہم نہ ہوں گے تو یہ جہان طلسم 
یہ فریب نظر رہے گا کیا 
تیرا اپنا نہیں ترا سایا 
تیرے زیر اثر رہے گا کیا 
موج اپنی جگہ کنارا ہے 
یہ کنارا مگر رہے گا کیا 
ڈوبنا تھا جسے وہ ڈوب گیا 
تو بھی اب ڈوب کر رہے گا کیا 
آج کیا بے افق رہے گی شام 
بے ستارہ سفر رہے گا کیا 
دیکھ کر ان پری نژادوں کو 
آئنہ خود نگر رہے گا کیا 
اپنے بس میں رہے گی کیا آندھی 
اپنے بل پر شجر رہے گا کیا 
شہر میں وہ جدھر رہے گا رسا 
شہر سارا ادھر رہے گا کیا 

رسا چغتائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *