سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ ترے ہاتھ دستار پر رہے گا کیا وہ جو اک خواب ہم نے دیکھا تھا خواب ہی عمر بھر رہے گا کیا مر رہے ہیں فراق میں تیرے تو ہمیں مار کر رہے گا کیا عشق خانہ خراب تیرے بعد کوئی آباد گھر رہے گا کیا ہم نہ ہوں گے تو یہ جہان طلسم یہ فریب نظر رہے گا کیا تیرا اپنا نہیں ترا سایا تیرے زیر اثر رہے گا کیا موج اپنی جگہ کنارا ہے یہ کنارا مگر رہے گا کیا ڈوبنا تھا جسے وہ ڈوب گیا تو بھی اب ڈوب کر رہے گا کیا آج کیا بے افق رہے گی شام بے ستارہ سفر رہے گا کیا دیکھ کر ان پری نژادوں کو آئنہ خود نگر رہے گا کیا اپنے بس میں رہے گی کیا آندھی اپنے بل پر شجر رہے گا کیا شہر میں وہ جدھر رہے گا رسا شہر سارا ادھر رہے گا کیا
رسا چغتائی