سر مے خانہ کوئی پارسا اب تک نہیں آیا ہمیں پینے پلانے کا مزا اب تک نہیں آیا کیا وعدہ مگر وہ بے وفا اب تک نہیں آیا خدا معلوم کب تک آئے گا اب تک نہیں آیا فلک کی گردشیں حیراں ہیں اس کی بے مثالی پر کوئی ایسا ستم گر دوسرا اب تک نہیں آیا شباب آیا حجاب آیا ادائیں آگئیں ان کو نہیں آیا تو انداز وفا اب تک نہیں آیا نگاہیں ان کی اٹھیں گھوم پھر کر غیر تک پہنچیں مری جانب کوئی تیر قضا اب تک نہیں آیا تمہی اے ہم نشینو نامہ بر کی کچھ خبر لاؤ ذرا پھر دیکھ لو یہ کیا کہا اب تک نہیں آیا ہزاروں کو ہے دعوی نا خدائی کا مگر ہم کو نظر کوئی بھی ساحل آشنا اب تک نہیں آیا مرے نزدیک تو عذر خطا انکار رحمت ہے خطا کاروں کو انداز خطا اب تک نہیں آیا پلٹ کر آ نہیں سکتا عدم کی راہ سے کوئی یہ دنیا چھوڑ کر جو بھی گیا اب تک نہیں آیا مرے غم خانۂ ہستی کی شب تاریک ہے کتنی کوئی جگنو کوئی روشن دیا اب تک نہیں آیا یہ اک تم ہو کہ اک مدت سے ہم کو بھولے بیٹھے ہو یہ اک ہم ہیں کہ ہم کو بھولنا اب تک نہیں آیا نصیرؔ اس نے دم رخصت نہ کیا کیا کھائی تھیں قسمیں مگر دیکھو ذرا وہ بے وفا اب تک نہیں آیا
پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ