Iztirab

Iztirab

سفر کے وقت

تمہاری یاد مرے دل کا داغ ہے لیکن
سفر کے وقت تو بے طرح یاد آتی ہو
برس برس کی ہو عادت کا جب حساب تو پھر
بہت ستاتی ہو جانم بہت ستاتی ہو
میں بھول جاؤں مگر کیسے بھول جاؤں بھلا
عذاب جاں کی حقیقت کا اپنی افسانہ
مرے سفر کے وہ لمحے تمہاری پر حالی
وہ بات بات مجھے بار بار سمجھانا
یہ پانچ کرتے ہیں دیکھو یہ پانچ پاجامے
ڈلے ہوئے ہیں کمر بند ان میں اور دیکھو
یہ شیو بکس ہے اور یہ ہے اولڈ اسپائس
نہیں حضور کی جھونجل کا اب کوئی باعث
یہ ڈائری ہے اور اس میں پتے ہیں اور نمبر
اسے خیال سے بکسے کی جیب میں رکھنا
ہے عرض 'حضرت غائب دماغ' بندی کی
کہ اپنے عیب کی حالت کو غیب میں رکھنا
یہ تین کوٹ ہیں پتلون ہیں یہ ٹائیاں ہیں
بندھی ہوئی ہیں یہ سب تم کو کچھ نہیں کرنا
یہ ویلیم ہے اونٹل ہے اور ٹرپٹی نال
تم ان کے ساتھ مری جاں ڈرنک سے ڈرنا
بہت زیادہ نہ پینا کہ کچھ نہ یاد آئے
جو لکھنؤ میں ہوا تھا وہ اب دوبارہ نہ ہو
ہو تم سخن کی انا اور تمکنت جانم
مذاق کا کسی انشاؔ کو تم سے یارا نہ ہو
وہ جون جو نظر آتا ہے اس کا ذکر نہیں
تم اپنے جونؔ کا جو تم میں ہے بھرم رکھنا
عجیب بات ہے جو تم سے کہہ رہی ہوں میں
خیال میرا زیادہ اور اپنا کم رکھنا
ہو تم بلا کے بغاوت پسند تلخ کلام
خود اپنے حق میں اک آزار ہو گئے ہو تم
تمہارے سارے صحابہ نے تم کو چھوڑ دیا
مجھے قلق ہے کہ بے یار ہو گئے ہو تم
یہ بینک کار منیجر یہ اپنے ٹیکنوکریٹ
کوئی بھی شبہ نہیں ہیں یہ ایک عبث کا ٹھٹھول
میں خود بھی ان کو کرومیگنن سمجھتی ہوں
یہ شاندار جناور ہیں دفتروں کا مخول
میں جانتی ہوں کہ تم سن نہیں رہے مری بات
سماج جھوٹ سہی پھر بھی اس کا پاس کرو
ہے تم کو طیش ہے بالشتیوں کی یہ دنیا
تو پھر قرینے سے تم ان کو بے لباس کرو
تم ایک سادہ و برجستہ آدمی ٹھہرے
مزاج وقت کو تم آج تک نہیں سمجھے
جو چیز سب سے ضروری ہے وہ میں بھول گئی
یہ پاسپورٹ ہے اس کو سنبھال کے رکھنا
جو یہ نہ ہو تو خدا بھی بشر تک آ نہ سکے
سو تم شعور کا اپنے کمال کر رکھنا
مری شکست کے زخموں کی سوزش جاوید
نہیں رہا مرے زخموں کا اب حساب کوئی
ہے اب جو حال مرا وہ عجب تماشا ہے
مرا عذاب نہیں اب مرا عذاب کوئی
نہیں کوئی مری منزل پہ ہے سفر درپیش
.ہے گرد گرد عبث مجھ کو در بہ در پیش

جون ایلیاء

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *