قلزم بے کراں تیرا پھیلاؤ زندگی کے شعور کا آغاز تیری موجوں کا پر سکون بہاؤ زندگی کے سرور کا غماز تیرے طوفان کا اتار چڑھاؤ زندگی کے غرور کا غماز سوچتا ہوں کہ تیری فطرت سے میری فطرت ہے کتنی ہم آہنگ تیری دنیا ہے کیسی بے پایاں میری دنیا ہے کیسی رنگا رنگ تو ہے کتنا وسیع اور محدود میں ہوں کتنا وسیع کتنا تنگ تیرے بھی گرد اک حصار سنگ میرے بھی گرد اک حصار سنگ