Iztirab

Iztirab

سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو

سوز دروں سے جل بجھو لیکن دھواں نہ ہو
ہے درد دل کی شرط کہ لب پر فغاں نہ ہو
پھر ہو رہا ہے شور صلائے نبرد عشق
ہاں اے دہان زخم جواب الاماں نہ ہو
بازار جاں فروش میں سودا نہ ہو یہ کیا
گاہک ملے تو جنس تو یہ بھی گراں نہ ہو
اس درد لا جواب کی کیونکر کروں دوا
وہ حال دل نشیں بھی تو مجھ سے بیاں نہ ہو
کیا فائدہ گر اس نے چھپایا بھی درد دل
یہ کام جب بنے کہ مژہ خونچکاں نہ ہو
کیا کیجے چن کے مائدہ دل کو لخت لخت
تیرا ہی تیر سینے میں جب مہماں نہ ہو
خوف رقیب کا تو یہ عالم اور اس پہ عشق
سب چاہتے ہیں چاہ کا ان پر گماں نہ ہو
ہے وصل یار کی بھی تمنا کا حوصلہ
ڈر یہ بھی ہے کہ طبع عدو پر گراں نہ ہو
پہلو سے دل کو لے کے وہ کہتے ہیں ناز سے
کیا آئیں گھر میں آپ ہی جب میزباں نہ ہو
سنتے ہی جس کے خلق سے کہرام مچ گیا
جوہرؔ وہ تیری ہی تو کہیں داستاں نہ ہو

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *