Iztirab

Iztirab

سو ظلمتیں ہے عشق پریشاں لئے ہوئے

سو ظلمتیں ہے عشق پریشاں لئے ہوئے
آ جاؤ مشعل رخ تاباں لئے ہوئے
ہر موج بے خراش تھی دریائے حسن کی
آنا پڑا تلاطم ارماں لئے ہوئے
دست جنوں کو چھیڑ نہ غیرت دہ بہار
دامن سے جا ملے نہ گریباں لئے ہوئے
بڑھ جائے اور عرصہ محشر ضرورتاً
آیا ہوں ساتھ کثرت عصیاں لئے ہوئے
اک سرمدی حیات گلے مل کے دی گئی
تھی تیغ ناز چشمہ حیواں لئے ہوئے
دیتے رہے وہ حسن کو درس جمال طور
بیٹھا رہا میں دیدہ حیراں لئے ہوئے
آتا ہے کون حشر میں یہ جھومتا ہوا
سجدوں کے ساتھ کوچہ جاناں لئے ہوئے
تو اپنے تیر ناز کا مجھ سے نہ ذکر کر
دل اڑ نہ جائے عالم امکاں لئے ہوئے
چھایا ہے ابرؔ مہر قیامت پہ بن کے ابر
وہ اشک تھا جو دیدہ گریاں لئے ہوئے

ابر احسنی گنوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *