پرچم سر میدان وغا کھول رہا ہے منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے کیا سیل بغاوت ہے مریدوں کی صفوں میں پیران تہی دست کا دل ڈول رہا ہے اے وائے صبا عقرب جرارہ چمن میں صرصر کے اشارات پہ بس گھول رہا ہے افرنگ کے دیرینہ غلاموں کی رضا پر خود پیر حرم بند قبا کھول رہا ہے کچھ بات ہی ایسی ہے کہ پیمانۂ زر میں اک رند تنک ظرف لہو تول رہا ہے بزغالۂ افرنگ شغالوں کے جلو میں کس ٹھاٹھ سے ضرغام صفت بول رہا ہے تاریخ کے ویرانۂ آباد میں شورشؔ کچھ قیمتی موتی ہیں قلم رول رہا ہے
شورش کاشمیری