Iztirab

Iztirab

سہیلی بوجھ پہیلی

پرچم سر میدان وغا کھول رہا ہے 
منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے 
کیا سیل بغاوت ہے مریدوں کی صفوں میں 
پیران تہی دست کا دل ڈول رہا ہے 
اے وائے صبا عقرب جرارہ چمن میں 
صرصر کے اشارات پہ بس گھول رہا ہے 
افرنگ کے دیرینہ غلاموں کی رضا پر 
خود پیر حرم بند قبا کھول رہا ہے 
کچھ بات ہی ایسی ہے کہ پیمانۂ زر میں 
اک رند تنک ظرف لہو تول رہا ہے 
بزغالۂ افرنگ شغالوں کے جلو میں 
کس ٹھاٹھ سے ضرغام صفت بول رہا ہے 
تاریخ کے ویرانۂ آباد میں شورشؔ 
کچھ قیمتی موتی ہیں قلم رول رہا ہے

شورش کاشمیری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *