Iztirab

Iztirab

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ 
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے 
زندگی کہ رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں 
عُمر کاٹ دیتے ہیں ، عُمر کاٹ دیتے ہیں 
اُور اپنے حصے کہ پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتِل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کہ گُلشن میں ابر بن کہ رہتے ہیں 
صبر کہ سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں 
یہ نہیں کے ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا خوں بہا نہیں ملتا 
زندگی کہ دامن میں جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مِل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں وقت پر نہیں آتیں 
یعنی ان کو مُحنت کا اجر مِل تُو جاتا ہے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جُو عبارت ہو پس نوشت ہو جائے 
فصل گُل کہ آخر میں پھول ان کہ کھلتے ہیں 
.ان کہ صحن میں سورج دیر میں نکلتے ہیں 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *