شب فراق کو جب مژدۂ سحر آیا تو اک زمانہ ترا منتظر نظر آیا تمام عمر کی صحرا نوردیوں کے بعد ترا مقام سر گرد رہ گزر آیا یہ کون آبلہ پا اس طرف سے گزرا ہے نقوش پا میں جو پھولوں کے رنگ بھر آیا کسے مجال کہ نظارۂ جمال کرے اس انجمن میں جو آیا بہ چشم تر آیا تری طلب کے گھنے جنگلوں میں آگ لگی مرے خیال میں جب وہم رہ گزر آیا سمٹ گیا مری باہوں میں جب وہ پیکر رنگ تو اس کا رنگ مجھے دور تک نظر آیا اس عارضوں میں کہ ضد کبریا کی پوری ہو ندیمؔ خاک پہ افلاک سے اتر آیا
احمد ندیم قاسمی