Iztirab

Iztirab

شراب

فضول ہے 
یہ گفتگو ہے 
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں 
چلو چلیں 
چلو چلیں جہاں ہمیں خیال ہی نہ آئے زندگی نظر کی بھول ہے 
چلو چلیں جہاں یہ در یہ دستکوں پہ دستکیں سنائی ہی نہ دے سکیں 
جہاں یہ روزن زبوں نگاہ کی مخاصمت نہ کر سکے 
جہاں کھلی فضا کھلی فضا کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو آئیے 
یہ کہہ رہی ہو آئیے کھلی فضا ہے یہ یہاں تو آئیے 

مگر کھلی فضا میں بھی کبھی گڑھے کبھی ستادہ پیڑ کہہ رہے ہیں دیکھیے 
یہ گفتگو فضول ہے 
فضول ہے 
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں 
چلو چلیں 
جو گود ماں کی تھی وہ ماں کی گود تھی 
وہاں ہر ایک بات جو فضول تھی وہ ایک بھول تھی 
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں 
چلو چلیں 
بہن یہ کہہ رہی تھی اب تو آپ گھر بسا ہی لیں 
میں سوچتا تھا کس کا گھر ہمارا گھر تمہارا گھر 
اور اس پہ بھائی بول اٹھا فضول ہے یہ گفتگو فضول ہے 
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں 

چلو چلیں جہاں نہ کوئی طاق ہو نہ چند بوتلیں جہاں نہ کہہ سکیں چلو چلیں 
یہ گفتگو فضول ہے 
مگر وہاں کوئی گڑھا نہ ہو نہ کوئی پیڑ ہو 
وہاں سکون آخری سے جا ملیں 

مگر یہاں بھی طاق پر رکھی ہیں چند بوتلیں 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *