Iztirab

Iztirab

شری کرشن

ہوا طلوع ستاروں کی دل کشی لے کر
سرور آنکھ میں نظروں میں زندگی لے کر
خودی کے ہوش اڑانے بصد نیاز آیا
نئے پیالوں میں صہبائے بے خودی لے کر
فضائے دہر میں گاتا پھرا وہ پریت کے گیت
نشاط خیز و سکوں ریز بانسری لے کر
جہان قلب سراپا گداز بن ہی گیا
ہر ایک ذرہ محبت کا ساز بن ہی گیا
جمال و حسن کے کافر نکھار سے کھیلا
ریاض عشق کی رنگیں بہار سے کھیلا
پیمبروں کی کبھی رسم کی ادا اس نے
گوالا بن کے کبھی سبزہ زار سے کھیلا
بہا دیے کبھی ٹھوکر سے پریم کے چشمے
کبھی جمن کبھی گنگا کی دھار سے کھیلا
ہنسی ہنسی میں وہ دکھ درد جھیلتا ہی رہا
کرشمہ باز زمانے سے کھیلتا ہی رہا
کیا زمانے کو معمور اپنے نغموں سے
سکھائے عشق کے دستور اپنے نغموں سے
صداقت اور محبت کی اس نے دی تعلیم
اندھیریوں میں بھرا نور اپنے نغموں سے
لطافتوں سے کیا ارض ہند کو لبریز
کثافتوں کو کیا دور اپنے نغموں سے
فلک کو یاد ہیں اس عہد پاک کی باتیں
وہ بانسری وہ محبت کی سانولی راتیں
دلوں میں رنگ محبت کو استوار کیا
سواد ہند کو گیتا سے نغمہ بار کیا
جو راز کوشش نطق و زباں سے کھل نہ سکا
وہ راز اپنی نگاہوں سے آشکار کیا
اداسیوں کو نئی زندگی عطا کر دی
ہر ایک ذرے کو دل دے کے بیقرار کیا
جو مشرب اس کا نہ اس طرح عام ہو جاتا
جہاں سے محو محبت کا نام ہو جاتا

سیماب اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *