Iztirab

Iztirab

شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو

شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو 
مرغ پھر کیا لڑے جو نوک نہ ہو 
کہیں دیکھے ہی سادہ رو خونخوار 
چشمۂ آئینہ میں جوک نہ ہو 
وہی کوچہ بھلا کہ جس میں کبھو 
دندنالوں کی روک ٹوک نہ ہو 
نام گردوں پہ جس کا ہے پرویں 
نیشکر کا یہ اس کے پھوک نہ ہو 
رنڈی بازی وہ کیا کرے پھر خاک 
پاس جس کے کتاب کوک نہ ہو 
گلہ باید حریص شہوت را 
ایک بکری سے شاد بوک نہ ہو 
پیٹ کا بھاڑ ہے بلا نہ بھرے 
خوب تا اس میں جھوکا جھوک نہ ہو 
حسن مطرب ہے سن کے گانے کا 
پیشہ لے جب گلے میں ڈوک نہ ہو 
کیا پھنکیتی کا وہ کرے دعویٰ 
مصحفیؔ یاد جس کو روک نہ ہو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *