Iztirab

Iztirab

شکست ساز

میں نے گل ریز بہاروں کی تمنا کی تھی
مجھے افسردہ نگاہوں کے سوا کچھ نہ ملا
چند سہمی ہوئی آہوں کے سوا کچھ نہ ملا
جگمگاتے ہوئے تاروں کی تمنا کی تھی
میں نے موہوم امیدوں کی پناہیں ڈھونڈیں
شدت یاس میں مبہم سا اشارہ نہ ملا
ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا نہ ملا
ہائے کس دشت بلا خیز میں راہیں ڈھونڈیں
اب فسوں ساز بہاروں سے مجھے کیا مطلب
آج ہی میری نگاہوں میں وہ منظر توبہ
میں نے دیکھے ہیں لپکتے ہوئے نشتر توبہ
خلد بر دوش نظاروں سے مجھے کیا مطلب
آسماں نور کے نغمات سے معمور سہی
میں نے گھٹتی ہوئی چیخوں کے سنے ہیں نوحے
ہائے وہ اشک جو پلکوں سے ڈھلک بھی نہ سکے
زندگی حسن و جوانی سے ابھی چور سہی
کبھی ضو پاش ستاروں کی تمنا تھی مجھے
آج ذروں کو بھی مقصود بنا رکھا ہے
آج کانٹوں کو کلیجے سے لگا رکھا ہے
کبھی گل ریز بہاروں کی تمنا تھی مجھے
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *