Iztirab

Iztirab

شکوہ اب گردش ایام کا کرتے کیوں ہو

شکوہ اب گردش ایام کا کرتے کیوں ہو 
خواب دیکھے تھے تو تعبیر سے ڈرتے کیوں ہو 
خوف پاداش کا لفظوں میں کہیں چھپتا ہے 
ذکر اتنا رسن و دار کا کرتے کیوں ہو 
تم بھی تھے زود یقینی کے تو مجرم شاید 
سارا الزام اسی شخص پہ دھرتے کیوں ہو 
عافیت کوش اگر ہو تو برا کیا ہے مگر 
راہ پر خار محبت سے گزرتے کیوں ہو 
جاں بہ لب کو نہیں ایفا کی توقع خود بھی 
اپنے وعدے سے بلا وجہ مکرتے کیوں ہو 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *