Iztirab

Iztirab

صبح کاذب

یہ جو اک نور کی ہلکی سی کرن پھوٹی ہے 
کون کہتا ہے اسے صبح درخشاں اے دوست 
مجھ کو احساس ہے باقی ہے شب تار بھی 
لیکن اے دوست مجھے رقص تو کر لینے دے 
کم سے کم نور نے الٹا تو ہے اک بار نقاب 
ایک لمحے کو تو ٹوٹا ہے طلسم شب تار 
اس سے ثابت تو ہوا صبح بھی ہو سکتی ہے 
پردۂ ظلمت شب چاک بھی ہو سکتا ہے 
صبح کاذب بھی تو ہے اصل میں دیباچۂ صبح 
صبح کاذب بھی تو ہے صبح درخشاں کی نوید 
ایک اعلان کہ ہنگام وداع شب ہے 
قافلہ نور سحر کا ہے بہت ہی نزدیک 
جلد ہونے کو ہے خورشید درخشاں کی نمود

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *