Iztirab

Iztirab

صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ

صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ 
ہے ہجر کی شب وصال کے ساتھ 
اے سرو رواں ٹک اک ادھر دیکھ 
جی جاتے ہیں تیری چال کے ساتھ 
ہے تیغ و کمان کی سی نسبت 
ابرو کو ترے ہلال کے ساتھ 
مت زلف کو شانہ کر مرا جی 
وابستہ ہے بال بال کے ساتھ 
دل اپنا ہنوز سادگی سے 
پیچیدہ ہے زلف و خال کے ساتھ 
مہمان تھا کس کا تو شب اے ماہ 
آتا ہے جو اس ملال کے ساتھ 
رخساروں نے کچھ عرق کیا ہے 
کچھ چشم ہے انفعال کے ساتھ 
میں شیر ہوں بیشۂ سخن کا 
صحبت ہے سگ و شغال کے ساتھ 
اکسیر ہے مصحفیؔ کا ملنا 
یعنی کہ وہ ہے کمال کے ساتھ 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *