Iztirab

Iztirab

صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں

صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں 
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں 
بکھرا پڑا ہے تیرے ہی گھر میں ترا وجود 
بے کار محفلوں میں تجھے ڈھونڈتا ہوں میں 
میں خودکشی کے جرم کا کرتا ہوں اعتراف 
اپنے بدن کی قبر میں کب سے گڑا ہوں میں 
کس کس کا نام لاؤں زباں پر کہ تیرے ساتھ 
ہر روز ایک شخص نیا دیکھتا ہوں میں 
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام 
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں 
پہنچا جو تیرے در پہ تو محسوس یہ ہوا 
لمبی سی ایک قطار میں جیسے کھڑا ہوں میں 
لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب 
دو چار سال عمر میں تجھ سے بڑا ہوں میں 
جاگا ہوا ضمیر وہ آئینہ ہے قتیلؔ 
سونے سے پہلے روز جسے دیکھتا ہوں میں 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *