Iztirab

Iztirab

صدیاں جن میں زندہ ہوں وُہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں

صدیاں جن میں زندہ ہوں وُہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں 
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تُو خواب بکھرنے لگتے ہیں 
انسانوں کہ روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر 
خوابوں سے دِل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں 
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو 
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں 
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں ، دُوست کی خاطر ہاتھوں میں 
جیتنے والے پتے بھی ہوں،  پھر بھی ہرنے لگتے ہیں 
دیکھے ہوئے وُہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں 
ڈھلتی عُمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں 
بیداری آسان نہیں ہے ، آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ 
قدم قدم ہم سپنوں کہ جرمانے بھرنے لگتے ہیں 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *