Iztirab

Iztirab

طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے

طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے 
اپنے ہی واسطے بنیاد خرابی ہوتے 
وہ جو سوتے ہیں فراغت سے انہوں کے سینے 
کاش یک شب ہدف تیر شہابی ہوتے 
مے نہ پیتے کبھی گل زار میں ہم یار بغیر 
پھول شبو کے جو یک دست گلابی ہوتے 
دل سے گرد غم کونین تو دھوئی جاتی 
کاش ہم کشتۂ شمشیر دو نابی ہوتے 
گر سمجھتے وہ کبھی معنیٔ متن قرآں 
چہرے شراح کے ہرگز نہ کتابی ہوتے 
عمر کے فوت کا ہم مرثیہ پڑھتے جو کبھو 
آن کر خضر و مسیح اپنے جوابی ہوتے 
اپنی قسمت میں تو محرومیٔ جاوید تھی آہ 
ورنہ ہم شیفتۂ روئے نقابی ہوتے 
روکشی کرنے کو ہم بحر سے جاتے مجنوں 
آبلے پائے جنوں کے جو حبابی ہوتے 
آتش دل ہی فروزاں نہ ہوئی ورنہ ہمیں 
الف تیغ بتاں سیخ کبابی ہوتے 
ہم کو دشوار تھا پھر روئے زمیں پر رہنا 
کوکب بخت ہمارے جو شہابی ہوتے 
کوئے عشاق سے گزرا نہ وہ کافر ورنہ 
لوگ رستے کے بہ تقلید شرابی ہوتے 
ماہ ہی بس ہے ہمیں گو کہ نہ ہووے خورشید 
مردہ کیوں ڈھونڈتے فرنی کی رکابی ہوتے 
نیم رنگ اس کی حنا دیکھ نہ مرتے گر ہم 
پھول تربت کے ہمارے نہ گلابی ہوتے 
مصحفیؔ نالہ خموشی سے کیا میں نے بدل 
تا کجا تار نفس تار ربابی ہوتے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *