طور پر اپنے کسی دِن بھی خور و خواب ہے یاں زندگانی کا بھلا کون سا اسباب ہے یاں چاہ سیماب سے سیماب جُو جوشاں ہے ہنوز میں سمجھتا ہوں کے مدفوں کوئی بیتاب ہے یاں خم ابرو کی تیرے کیونکے نہ تعریف کروں اس سے بہتر بھی کوئی تیغ سیہ تاب ہے یاں مقتل عشق کی بھی کیا ہی ہے جائے کھٹکی کے نہ سر اُور نہ سجدہ ہے نہ محراب ہے یاں میری تربت کہ تُو آنگن میں نہ ٹھہرا اِک دم یہ تیرے جی میں نہ آیا شب مہتاب ہے یاں کشتگاں کو تیری شمشیر یہی کہتی ہے کیجیے اس پہ قناعت تُو دم آب ہے یاں اس کو بھی گر نہ فلک دیکھ سکے چر والے اُور تُو کیا ہے پریشانی کا اسباب ہے یاں اعتبارات ہیں یہ ہستیٔ موہومی کہ فی الحقیقت تو کوئی خاں ہے نہ نواب ہے یاں خاک تربت کی میری دیکھ چمکتی احباب جی میں کہتے ہیں مگر معدن سیماب ہے یاں کیا خط عاشق و معشوق کو کوئی سمجھے کچھ کنایت سی ہے آداب نہ القاب ہے یاں مصحفیؔ آپ ہی ہم قتل ہیں اپنے ہاتھوں ورنہ کیں خواہ تُو رستم ہے نہ سہراب ہے یاں
غلام ہمدانی مصحفی