Iztirab

Iztirab

طوفاں ہے اگر گھر کے درپئے یوں بیٹھ نہ جاؤ کچھ تو کرو

طوفاں ہے اگر گھر کے درپئے یوں بیٹھ نہ جاؤ کچھ تو کرو 
کھڑکی کے شکستہ شیشہ پر کاغذ ہی لگاؤ کچھ تو کرو 
انسان کے قبضۂ قدرت میں اک نطق نہیں ہے بہت کچھ ہے 
ہونٹوں سے نہ نکلے بات اگر آنکھوں سے سناؤ کچھ تو کرو 
محروم تمنا رہنے کا سناٹا کھا جائے گا تمہیں 
مایوسی کے سکتے سے بچو آنسو ہی بہاؤ کچھ تو کرو 
سلطان کے قصر مرمر کا دروازۂ آہن بند سہی 
گر توڑ نہیں سکتے اس کو زنجیر ہلاؤ کچھ تو کرو 
اے جلتے ہوئے گھر کے لوگو شعلوں میں گھرے کیا سوچتے ہو 
جب آگ بجھانا مشکل ہے باہر نکل آؤ کچھ تو کرو 
یہ کھیت جو چپ ہیں بولیں گے اور اکھوے آنکھیں کھولیں گے 
بارش نہ سہی بجلی ہی سہی کچھ تو برساؤ کچھ تو کرو 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *