Iztirab

Iztirab

ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو

ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو 
جو دم ہے غنیمت ہے کہ پھر رات ہے اور تو 
اک ہم سے ہی ملنے میں تأمل ہے وگرنہ 
غیروں سے وہی تیری ملاقات ہے اور تو 
یاں روز سیاہ و شب تاریک ہے اور ہم 
واں آئینۂ باغ طلسمات ہے اور تو 
مر جانے کی جا ہے کہ صنم دو دو پہر تک 
ہر اک سے سر بام اشارات ہے اور تو 
سو باتیں ہوئیں تو نہ ملا اپنے سے اے دل 
کیا بات ہے تیری کہ وہی بات ہے اور تو 
نے حور نہ انساں نہ پری اور نہ فرشتہ 
جس حسن و صباحت میں تری گات ہے اور تو 
زندان فراق و لب خاموش ہے اور ہم 
سیر چمن و حرف و حکایات ہے اور تو 
ہووے گا نہ یہ ہستئ فانی کا بکھیڑا 
اک روز یہ ہوگا کہ تری ذات ہے اور تو 
نومید نہ ہو ہجر میں اے مصحفیؔ اس سے 
دو دن کو وہی لطف و عنایات ہے اور تو 
کڑھ مت کہ فراغت کی بھی آ جائے ہے ساعت 
پھر مان دوانے وہی اوقات ہے اور تو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *