Iztirab

Iztirab

عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ

عاشق سمجھ رہے ہیں مجھے دل لگی سے آپ
واقف نہیں ابھی مرے دل کی لگی سے آپ
دل بھی کبھی ملا کے ملے ہیں کسی سے آپ
ملنے کو روز ملتے ہیں یوں تو سبھی سے آپ
سب کو جواب دے گی نظر حسب مدعا
سن لیجے سب کی بات نہ کیجے کسی سے آپ
مرنا مرا علاج تو بے شک ہے سوچ لوں
یہ دوستی سے کہتے ہیں یا دشمنی سے آپ
ہوگا جدا یہ ہاتھ نہ گردن سے وصل میں
ڈرتا ہوں اڑ نہ جائیں کہیں نازکی سے آپ
زاہد خدا گواہ ہے ہوتے فلک پر آج
لیتے خدا کا نام اگر عاشقی سے آپ
اب گھورنے سے فائدہ بزم رقیب میں
دل پر چھری تو پھیر چکے بے رخی سے آپ
دشمن کا ذکر کیا ہے جواب اس کا دیجئے
رستہ میں کل ملے تھے کسی آدمی سے آپ
شہرت ہے مجھ سے حسن کی اس کا مجھے ہے رشک
ہوتے ہیں مستفیض مری زندگی سے آپ
دل تو نہیں کسی کا تجھے توڑتے ہیں ہم
پہلے چمن میں پوچھ لیں اتنا کلی سے آپ
میں بے وفا ہوں غیر نہایت وفا شعار
میرا سلام لیجے ملیں اب اسی سے آپ
آدھی تو انتظار ہی میں شب گزر گئی
اس پر یہ طرہ سو بھی رہیں گے ابھی سے آپ
بدلا یہ روپ آپ نے کیا بزم غیر میں
اب تک مری نگاہ میں ہیں اجنبی سے آپ
پردے میں دوستی کے ستم کس قدر ہوئے
میں کیا بتاؤں پوچھئے یہ اپنے جی سے آپ
اے شیخ آدمی کے بھی درجے ہیں مختلف
انسان ہیں ضرور مگر واجبی سے آپ
مجھ سے صلاح لی نہ اجازت طلب ہوئی
بے وجہ روٹھ بیٹھے ہیں اپنی خوشی سے آپ
بیخودؔ یہی تو عمر ہے عیش و نشاط کی
دل میں نہ اپنے توبہ کی ٹھانیں ابھی سے آپ

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *