عاشق کہیں ہیں جن کو وُہ بے ننگ لوگ ہیں معشوق جن کا نام ہے وُہ سنگ لوگ ہیں کس طرح کسبیوں سے رکھے کوئی جی بچا سب جانتے ہیں ان کو یہ سرہنگ لوگ ہیں مجنُوں تُو جا کہ دشت میں فریاد کر کے آئے نالے سے تیرے شہر کہ دِل تنگ لوگ ہیں عالم کے صوفیوں کہ کوئی کیا سمجھ سے ہر رنگ سے جُدا ہیں یہ بے رنگ لوگ ہیں ہم تُو نہ لعل لب کا تیرے بوسہ لے سکے رکھتے ہیں یہ خیال جُو بے ڈھنگ لوگ ہیں اترا ہے کون آب میں یہ جس کہ حُسن سے حیراں کھڑے ہوئے بہ لب گنگ لوگ ہیں میرے لغات شعر کہ عالم کو مصحفیؔ سمجھیں ہیں وُہ جُو صاحب فرہنگ لوگ ہیں
غلام ہمدانی مصحفی