Iztirab

Iztirab

عالم کتن

اف یہ شبنم سے چھلکتے ہوئے پھولوں کے ایاغ 
اس چمن میں ہیں ابھی دیدۂ پر نم کتنے 

کتنے غنچے ہیں جگر چاک گلستاں میں ابھی 
ہر طرف زخم ہیں بے منت مرہم کتنے 

کتنے سینوں میں شکستہ ہیں ابھی دل کے رباب 
لب خاموش پہ ہیں نغمۂ ماتم کتنے 

کتنے ماتھوں کے ابھی سرد ہیں رنگین گلاب 
گرد افشاں ہیں ابھی گیسوئے پر خم کتنے 

ذہن آدم میں ہے افکار کی دنیا آباد 
قلب انساں میں امانت ہیں ابھی غم کتنے 

دھندلے دھندلے سے ستارے ہیں افق پر لرزاں 
زندگانی کے حسیں خواب ہیں مبہم کتنے 

آج تو کاکل گیتی نہ سنور جائے گی 
سلسلے شوق کے ہوں گے ابھی برہم کتنے 

جذب ہوں گے ابھی اس خاک چمن میں اے دوست 
اشک بن بن کے گہر ریزۂ شبنم کتنے 

ابھی گونجیں گی سلاسل کی صدائیں کتنی 
اور ہوں گے ابھی زنجیر سے ماتم کتنے 

زندگی راہ تصادم میں بھٹکتی ہے ابھی 
وقت کے لب پہ ابھی عذر ہیں پیہم کتنے 

اک ذرا صبر کہ ان سرخ گھٹاؤں کے تلے 
سرنگوں ہوں گے یہاں خاک پہ پرچم کتنے 

لالہ و گل کے تبسم سے شفق پھولے گی 
ہر طرف رنگ نظر آئیں گے باہم کتنے 

خون دل میں ہے نہاں شعلۂ صد رنگ بہار 
اس گلستاں میں ہیں اس راز کے محرم کتنے 

انہی ذروں سے ابھر آئیں گے کتنے مہ و مہر 
اسی عالم سے سنور جائیں گے عالم کتنے 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *