Iztirab

Iztirab

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا

عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا 
کبھی جان صدقے ہوتی کبھی دل نثار ہوتا 
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا 
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا 
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا 
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا 
غم عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے 
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوش گوار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا کہ برابر آگ لگتی 
نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا 
نہ مزا ہے دشمنی میں نہ ہے لطف دوستی میں 
کوئی غیر غیر ہوتا کوئی یار یار ہوتا 
ترے وعدے پر ستم گر ابھی اور صبر کرتے 
اگر اپنی زندگی کا ہمیں اعتبار ہوتا 
یہ وہ درد دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی 
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا 
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشم مست دیکھی 
مجھے کیا الٹ نہ دیتے جو نہ بادہ خوار ہوتا 
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے 
در یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا 
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغؔ کا دل 
.یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا

داغ دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *