Iztirab

Iztirab

عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے

عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
غیر سمجھا ہے کہ میری آہ بے تاثیر ہے
خوگر قید وفا پر کھل چکا زنداں کا راز
جرم تھی وہ قید یہ اس جرم کی تعزیر ہے
بے گناہی سے بھی بڑھ کر ہے اگر کوئی گناہ
تو سزائے عشق پا کر خجلت تقصیر ہے
چھوڑ میری فکر غافل رو خود اپنی قید پر
جس کو تو زیور سمجھتا ہے وہی زنجیر ہے
سجن و جنت دونوں اے کافر ہیں اس دنیا کے نام
وہ ازل سے بخت مومن یہ تری تقدیر ہے
دار ہی بنتی ہے اے دل زینۂ معراج عشق
خواب آغاز محبت کی یہی تعبیر ہے
ہو نہ الجھن جب جنون جامہ ور کامل نہ ہو
جب تلک دامن ہے خار دشت دامن گیر ہے
ہاتھ تو ہوں گے قلم پر نامہ بر یہ بھی کہا
دل چرا لیتی ہے پہلو سے یہ وہ تحریر ہے
پائیداری میں ہے قصروں سے سوا کچی سی قبر
جو قیامت تک رہے قائم یہ وہ تعمیر ہے
خون ناحق کا کسی کے شبہ اور تم پر مگر
سینہ جوہرؔ میں دیکھو تو یہ کس کا تیر ہے

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *