Iztirab

Iztirab

عشق مُجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

عشق مُجھ کو نہیں وحشت ہی سہی 
مری وحشت تیری شہرت ہی سہی 
قطع کیجے نہ تعلق ہم سے 
کچھ نہیں ہے ، تو عداوت ہی سہی 
مرے ہونے میں ہے ، کیا رسوائی 
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی 
ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے 
غیر کو تُجھ سے محبت ہی سہی 
اپنی ہستی ہی سے ہو ، جو کچھ ہو 
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی 
عمر ہرچند کے ہے ، برق خرام 
دل کہ خوں کرنے کی فرصت ہی سہی 
ہم کوئی ترک وفا کرتے ہیں 
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی 
کچھ تو دے اے فلک ناانصاف 
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی 
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے 
بے نیازی تیری عادت ہی سہی 
یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ 
. گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی 

مرزا غالب 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *