Iztirab

Iztirab

عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے

عشق میں کب یہ ضروری ہے کہ رویا جائے 
یہ نہیں داغ ندامت جسے دھویا جائے 
دوپہر ہجر کی تپتی ہوئی سر پر ہے کھڑی 
وصل کی رات کو شکوؤں میں نہ کھویا جائے 
الجھے اب پنجۂ وحشت نہ گریبانوں سے 
آج اسے سینۂ اعدا میں گڑویا جائے 
ایک ہی گھونٹ سہی آج تو پی لے زاہد 
کچھ نہ کچھ زہد کی خشکی کو سمویا جائے 
جتنے بھی داغ رعونت کے ہیں دھل جائیں گے 
حوض مے میں تجھے شیخ آج ڈبویا جائے 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *