Iztirab

Iztirab

عشق پھر رنگ وُہ لایا ہے کے جی جانے ہے

عشق پھر رنگ وُہ لایا ہے کے جی جانے ہے 
دِل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانے ہے 
ناز اٹھانے میں جفائیں تُو اٹھائیں لیکن 
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کے جی جانے ہے 
زخم اس تیغ نگہ کا میرے دِل نے ہنس کر 
اِس مزے داری سے کھایا ہے کے جی جانے ہے 
اِس کی دزدیدہ نگہ نے میرے دِل میں چھپ کر 
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانے ہے 
بام پر چڑھ کہ تماشے کو ہمیں حُسن اپنا 
اِس تماشے سے دکھایا ہے کے جی جانے ہے 
اس کی فرقت میں ہمیں چرخ ستم گار نے آہ 
یہ رلایا  یہ رلایا ہے کے جی جانے ہے 
حکم چپی کا ہوا شب تُو سحر تک ہم نے 
رتجگا ایسا منایا ہے کے جی جانے ہے 
تلوے سہلانے میں گو اونگھ کہ جھک جھک تُو پڑے 
پر مزا بھی وُہ اڑایا ہے کہ جی جانے ہے 
رنج ملنے کہ بہت دِل نے سہے لیک نظیرؔ 
.یار بھی ایسا ملایا ہے کے جی جانے ہے 

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *