Iztirab

Iztirab

عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے

عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے 
آپ حلال میں ہوتا ہوں ان لوگوں کو قربانی ہے 
نطق زباں گر ہوتا مجھ کو پوچھتا میں تقصیر مری 
ہاں یہ مگر دو آنکھیں ہیں سو ان سے اشک فشانی ہے 
گھاس چری ہے جنگل کی میں جون میں دنبے بکرے کی 
ان کا کچھ ڈھالا کہ بگاڑا جس پر خنجر رانی ہے 
تین جگہ سے میرے گلے کو مثل شتر یہ کاٹتے ہیں 
دین محمدی ہے جو خلیلی اس کی یہ طغیانی ہے 
جنس نے جنس کو قتل کیا کب دیکھیو بد ذاتی تو ذرا 
یعنی جو ہو مرد مسلماں اس کی یہ ہی نشانی ہے 
کافر دل جلاد نہیں ہم زخم کو ایک سمجھتے ہیں 
ہم کو جو اس کام کا سمجھے اس کی یہ نادانی ہے 
راہ رضا پر اپنا گلا کٹوائے جو نیچے خنجر کے 
مصحفیؔ اس کو ہم یہ کہیں گے وہ بھی حسین ثانی ہے

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *