Iztirab

Iztirab

علامہ اقبال کو شکوہ

کسی سے خواب میں اقبالؔ نے یہ فرمایا
کہ تو نے کر دیا برباد میرا سرمایہ
مرا کلام گویوں کو سونپنے والے
نظر نہ آئے تجھے میرے قلب کے چھالے
میں چاہتا تھا مسلمان متحد ہو جائیں
یہ کب کہا تھا کہ ہم بحر منجمد ہو جائیں
مری یہ شان کہ دریا بھی تھا مرا محتاج
ترا یہ حال کہ ملکوں سے مانگتا ہے خراج
کہا تھا میں نے غریبی میں نام پیدا کر
یہ کب کہا تھا کہ مال حرام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
تری خوراک چپاتی نہیں خمیری ہے
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
خیال شبنم و زیبا کے پوز میں ہے ترا
مرے کلام سے تجھ کو سبق ذرا نہ ملا
کہاں کی راہ حرم گھر کا راستہ نہ ملا
خودی بلند ہو بے شک یہی تھی میری رائے
یہ کب کہا تھا کہ قوال اس میں ہاتھ لگائے
دلاور فگار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *