Iztirab

Iztirab

علی گڑھ چھوڑنے کے بعد

ہم نشیں رات کی مغموم خموشی میں مجھے 
دور کچھ دھیمی سی نغموں کی صدا آتی ہے 
جیسے جاتی ہوئی افسردہ جوانی کی پکار 
جس کو سن سن کے مری روح لرز جاتی ہے 
جیسے گھٹتی ہوئی موجوں کا اترتا ہوا شور 
مطربہ جیسے کوئی دور نکل جاتی ہے 
یا ہواؤں کا ترنم کسی ویرانے میں 
جیسے تنہائی میں دوشیزہ کوئی گاتی ہے 
میں بہت غور سے نغمات سنا کرتا ہوں 
سچ تو یہ ہے کہ مری جان پہ بن جاتی ہے 
بار بار اٹھ کے میں جاتا ہوں صداؤں کی طرف 
لیکن اک شے ہے جو واپس مجھے لے آتی ہے 
چونک اٹھتا ہوں جب اس خواب سے حیراں ہو کر 
پھر مجھے دوسری دنیا ہی نظر آتی ہے 
آہ، وہ بھوک کے مارے ہوئے افراد ہنسیں 
جن کی صورت پہ قناعت بھی ترس کھاتی ہے 
جیسے اجڑی ہوئی محفل کے کچھ افسردہ چراغ 
روشنی میں جنہیں ہر گام پہ ٹھکراتی ہے 
آہ وہ حضرت انسان ہی کا درد و ستم 
جس کا اظہار بھی کرتے ہوئے شرم آتی ہے 
وہ ترانے جو سنا کرتا ہوں تنہائی میں 
ان ترانوں میں مجھے بوئے وفا آتی ہے 
گاؤں گا نغمے وہ تعمیر محبت کے لیے 
مے کدہ چھوڑ دیا جن کی اشاعت کے لیے 

شکیل بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *