Iztirab

Iztirab

عورتوں کی اسمبلی

وہ شانوں پہ زرکار آنچل اچھالے 
ادھر سے ادھر مست زلفوں کو ڈالے 
میاں اور بچے خدا کے حوالے 
حسیں ہاتھ میں نرم فائل سنبھالے 
کس انداز سے ناز فرما رہی ہے 
کہ جیسے چمن میں بہار آ رہی ہے 
مباحث میں یوں گرم گفتار ہیں سب 
کہ بس لڑنے مرنے کو تیار ہیں سب 
فسوں کار ہیں سب طرح دار ہیں سب 
برابر برابر کی سرکار ہیں سب 
ادھر اصغری بھڑک گئی اکبری سے 
ادھر طفل رونے لگے گیلری سے 
‘‘اسپیچوں’’ میں گوٹے کناری کی باتیں 
بہو کی کفایت شعاری کی باتیں 
پڑوسن کی پرہیزگاری کی باتیں 
غرض ہر بیاہی کنواری کی باتیں 
رواں ہیں ہجوم تجلی کے دھارے 
یہ آنچل سمیٹے وہ گیسو سنوارے 
دم گفتگو کوئی جیتے نہ ہارے 
ستاروں سے ٹکرا رہے ہیں ستارے 
بوا کو تو دیکھو نہ گہنا نہ پاتا 
بجٹ ہاتھ میں جیسے دھوبن کا کھاتا 
بہ انداز غیظ و غضب بولتی ہیں 
بہ آواز شور و شغب بولتی ہیں 
نہیں بولتی ہیں تو کب بولتی ہیں 
یہ جب بولتی ہیں تو سب بولتی ہیں 
معاً اپنے خوابوں میں گم ہو گئی ہیں 
ابھی جاگتی تھیں ابھی سو گئی ہیں 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *