Iztirab

Iztirab

غمزہ نہیں ہوتا کے اشارا نہیں ہوتا

غمزہ نہیں ہوتا کے اشارا نہیں ہوتا 
آنکھ ان سے جُو ملتِی ہے تُو کیا کیا نہیں ہوتا 
جلوہ نہ ہو معنی کا تُو صورت کا اثر کیا 
بلبل گُل تصویر کا شیدا نہیں ہوتا 
اللہ بچائے مرض عشق سے دِل کو 
سنتے ہیں کے یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا 
تشبیہ تیرے چہرے کو کیا دوں گل تر سے 
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا 
میں نزع میں ہوں آئیں تُو احسان ہے ان کا 
لیکن یہ سمجھ لیں کے تماشا نہیں ہوتا 
ہم آہ بھی کرتے ہیں ، تُو ہو جاتے ہیں بدنام 
.وُہ قتِل بھی کرتے ہیں ، تُو چرچا نہیں ہوتا 

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *