غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا دل کے جانے کا نہایت غم رہا حسن تھا تیرا بہت عالم فریب خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا دل نہ پہنچا گوشہ داماں تلک قطرہ خوں تھا مژہ پر جم رہا سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا جامہ احرام زاہد پر نہ جا تھا حرم میں لیک نامحرم رہا زلفیں کھولیں تو تو ٹک آیا نظر عمر بھر یاں کام دل برہم رہا اس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے اپنے حق میں آب حیواں سم رہا میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا صبح پیری شام ہونے آئی میرؔ .تو نہ چیتا یاں بہت دن کم رہا
میر تقی میر