Iztirab

Iztirab

غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے

غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے 
مجھے خوف ہے یہ تہمت ترے نام تک نہ پہنچے 
میں نظر سے پی رہا تھا تو یہ دل نے بد دعا دی 
ترا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے 
وہ نوائے مضمحل کیا نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن 
وہ صدائے اہل دل کیا جو عوام تک نہ پہنچے 
مرے طائر نفس کو نہیں باغباں سے رنجش 
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے 
نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ یہ بھی ڈر ہے 
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے 
یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک 
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے 
جو نقاب رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگا دی 
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے 
انہیں اپنے دل کی خبریں مرے دل سے مل رہی ہیں 
میں جو ان سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے 
وہی اک خموش نغمہ ہے شکیلؔ جان ہستی 
جو زبان پر نہ آئے جو کلام تک نہ پہنچے 

شکیل بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *