غم مجھے حسرت مجھے وحشت مجھے سودا مجھے ایک دل دے کر خدا نے دے دیا کیا کیا مجھے ہے حصول آرزو کا راز ترک آرزو میں نے دنیا چھوڑ دی تو مل گئی دنیا مجھے یہ نماز عشق ہے کیسا ادب کس کا ادب اپنے پائے ناز پر کرنے بھی دے سجدا مجھے کہہ کے سویا ہوں یہ اپنے اضطراب شوق سے جب وہ آئیں قبر پر فوراً جگا دینا مجھے صبح تک کیا کیا تری امید نے طعنے دیے آ گیا تھا شام غم اک نیند کا جھوکا مجھے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا سے میں اٹھ جاؤں گا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی دنیا مجھے جلوہ گر ہے اس میں اے سیمابؔ اک دنیائے حسن جام جم سے ہے زیادہ دل کا آئینہ مجھے
سیماب اکبر آبادی